اسلام اور اس کے احکامات

 

اسلام میں احکامات کی مختلف قسمیں ھیں جن میں سے کچھ میں تو فرد مخاطب ھے اورجنہیں وہ انفرادی طور پر ادا کر سکتا ھے،اور کچھ احکامات میں نظم یا اجتماعیت مخاطب ھے،، چاھے وہ نظم کسی بھی اصول پر قائم کیا گیا ھو،،وہ کوئی سرداری قبائلی نظم ھو یا آمریت ھو یا خلافت ھو یا جمہوریت ھو،ان میں سے ایک قصاص بھی ھے،ھر فرد کو یہ اجازت نہیں کہ وہ خود آگے بڑھ کر اپنے مقتول کا بدلہ لے لے، پھر دوسرا اٹھے اور اپنے مقتول کے بدلے میں خود کسی بندے کا انتخاب کر کے قتل کر دے یا یہ سوچے کہ جناب ھمارا آدمی تو قاتل قبیلے کے دس آدمیوں کے برابرتھا لہذا ھم دس آدمی ماریں گے،، یا ھمارا تو سردار مارا گیا ھے، جب کہ قاتل عام آدمی ھے تو ھم قاتل کے خاندان کے 10 آدمی ماریں گے،یا یہ کہ قاتل تو ایک عورت ھے، مقتول مرد ھے لہذا ھم بھی بدلے میں لازم مرد ماریں گے،،یا قاتل کوئی غلام ھے جبکہ مقتول آزاد ھے تو ھم بدلے میں آزاد ماریں گے،،

جب بھی افراد انفرادی طور پر بدلہ لینے نکلتے ھیں تو وہ کبھی بھی حدِ اعتدال میں نہیں رھتے اور نہ وہ انصاف کر پاتے ھیں،بلکہ غیظ و غضب انہیں ھمیشہ زیادتی پر اکساتا ھے،، وہ چاھتے ھیں کہ نہ صرف بدلہ اتر جائے بلکہ ھم کچھ ایسا کریں کہ دوسرے فریق پر ھماری دھاک بیٹھ جائے اور ھمارا ھاتھ اوپر رھے !

یوں ھوتا یہ ھے کہ جب وہ بدلہ لینے نکلتے ھیں تو یا تو اپنے مزید بندے مروا کر پلٹتے ھیں،، بدلہ ایک کا لینے گئے تھے،مگر وھاں مزاحمت ھو گئ اور مزید دس بندے مارے گئے،،یا فریق مخالف نے مزاحمت کی اور اصلی قاتل تو محفوظ رھا جبکہ دیگر دس آدمی مارے گئے،،یہ طریقہ قصاص پھر نسلوں تک چلتا رھتا ھے کہ قبیلے کے قبیلے اس اندھے انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتے ھیں !

اجتماعیت اس بات کو ممکن بناتی ھے اور یہ ممکن بنانے کے لئے ادارے قائم کرتی ھے جو اصلی قاتل کو گرفتار کرے، اس پر مقدمہ چلائے اور اسے سزا دے،یوں قاتل کو مقتول کے قبیلے کو سونپ دینے میں اپنی ناک کٹ جانے کا احساس رکھنے والوں کو اسے حکومت کو سونپ دینے میں آسانی رھتی ھے !

اس طرح ایک جان کے بدلے میں عدل و انصاف کے ساتھ ایک ھی جان سے قصاص لیا جاتا ھے، جو قاتل ثابت ھو،، اس کے لئے غیر جانبدار عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ھے !

شریعت مجھے اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتی کہ میں خود آگے بڑھ کر اپنے بھائی کے قاتل کو قصاص کے نام پر قتل کر دوں ،بلکہ اگر میں اپنے بھائی کے بدلے میں قاتل کی جان لیتا ھوں تو قانون کی نظر میں قاتل جیسا ھی مجرم قرار پاتا ھوں اور وھی دفعہ میرے اوپر بھی لاگو ھوتی ھے ،

یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ عملی طور پر بھی جب میرے دو بھائیوں کو 29 مارچ 1995 میں قتل کیا گیا، جن کی عمریں 18 سال اور 22 سال تھیں ،، قاتل گرفتار ھوا جو کہ حوالات میں بند تھا،اس کے ساتھ اس کا والد اور بھائی بھی تھا،تینوں ایک ھی دس بائی دس فٹ کے کمرے میں بند اور میرے سامنے تھے،، میرے پاس پستول تھا جس کی میگزین میں 9 گولیاں تھیں،، ملزم سامنے بیٹھا تھا اور میں اکیلا تھا وھاں پولیس کا پہرہ بھی نہیں تھا ،میں تقریباً پانچ منٹ تک ان سے مکالمہ کرتا رھا ،جس میں قاتل مجھے گالیاں بھی دیتا رھا ،میں اگر چاھتا تو اپنے بھائیوں کے بدلے میں قاتل اور اس کے بھائی کو قتل کر کے حساب برابر کر سکتا تھا،اور یہی پولیس کا عندیہ بھی تھا کہ عدالت سزا دے گی بھی تو ایک کو دے گی،جبکہ آپ یہاں دو کو پھڑکا سکتے ھیں اور آپ پر دفعہ بھی 304 کی لگے گی،، مگر الحمد للہ قاتل کے اشتعال دلانے کے باوجود اور قتل کر سکنے کے تمام تر اسباب پر دسترس رکھنے کے باوجود مجرد اللہ کے خوف کی بنیاد پر میں نے کوئی اقدام نہیں کیا اور ملزم کو عدالت کے ذریعے 11 سال بعد سزا دلوائی ! عدالت کو ملزم کے فعل پر شک ھو سکتا ھے مگر مجھے تو اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ قاتل کون ھے،،وہ شریعت جو مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں سامنے بیٹھے ایک یقینی قاتل کو قتل کروں ، وہ شریعت کسی گروہ کو اسلام کے نام پر قتلِ عام کا لائسنس کیسے دے سکتی ھے کہ وہ جہاں چاھے جس کو چاھے جتنے چاھے بندے مارے ؟؟ میں یہ بات اس یقین کے ساتھ کہہ رھا ھوں کہ اگر خدانخواستہ میرے بیوی بچوں سمیت میرا پورا خاندان کسی ڈرون کا شکار ھو جاتا تو بھی میرے الفاظ میں کوئی کمی بیشی نہ ھوتی ،اور میرا موقف یہی ھوتا کہ میرے مجرم وہ ھیں جن کی وجہ سے یہ سب ھوا !! اللہ پاک کا ارشاد ھے ” اے ایمان والو تم پر مقتولین کے معاملے میں قصاص فرض کیا گیا ھے،، آزاد اگر قاتل ھے تو بدلے میں وھی آزاد اور اگر غلام قاتل ھے تو بدلے میں وھی غلام اور اگر کوئی عورت قاتلہ ھے تو بدلے میں وھی عورت قتل کی جائے گی،اور قصاص میں ھی تمہاری زندگی کی ضمانت ھے اے عقلمندو، ،، اسکے درمیان ایک تخفیف کی صورت رکھی کہ اگر مقتول کے ورثاء چاھئیں تو وہ دیت لے سکتے ھیں،، لیکن عدالت یہ فیصلہ قبول کرنے سے پہلے بحیثیتِ مجموعی اس بات کا جائزہ لے گی کہ اس بندے کو چھوڑ دینا کہیں باقی اجتماعیت کے لئے زہرِ قاتل تو نہیں ؟ قتل کی مختلف قسمیں ھیں اور صلح کی بھی مختلف قسمیں ھیں ! ایک قتل وہ ھے جو برادری کی سطح پر کسی لڑائی جھگڑے میں ھوا ھے، اور برادری ھی کی سطح پر صلح ھوئی ھے،، ایک قتل وہ ھے جو ڈکیتی کے دوران ھوا ھے،، ان دو میں زمین آسمان کا فرق ھے،،تیسرا قتل وہ ھے جو کسی گینگ وار کے دوران ھوا ھے،،چوتھا قتل وہ ھے جو کسی وڈیرے نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کیا ھے ،، اب اسی طرح صلح کی بھی قسمیں ھونگی،، برادری کی صلح کو عدالت مان بھی لیتی ھے،،مگر جب بات ڈکیتی اور وڈیرے کی دھشت کی آ جاتی ھے تو عدالت سمجھتی ھے کہ فریق مخالف پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا گیا ھے اور عدالت اگر ملزم کو چھوڑ دیتی ھے تو گویا امیر کو یا وڈیرے کو اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر قتل کا لائسنس دےدیتی ھے،، اس صورت میں اجتماعیت کے وسیع تر مفاد میں وہ اس صلح کو مسترد کرنے اور قصاص کی فرضیت کے حکم پر عملدرآمد کی ذمہ دار ھے،، کیونکہ اللہ پاک نے یہ کہہ کر کہ تمہارے اجتماعی وجود کے لئے قصاص ھی زندگی کی ضمانت ھے ،اسی طرف توجہ دلائی ھے

حدیثِ کساء اور اھل بیت

حدیثِ کساء !

یعنی کمبل کے نیچے لے کر اھل بیت بنانا !!
اس سلسلے کی روایات پر پاک و ھند مین سب سے پہلے مولوی حبیب احمد کیرانوی صاحب( مصنف اظہارِ حق ) نے قلم اٹھایا اور ایک امتی ھونے کا حق ادا کر دیا،، ان ھی کی تحقیق سے استفادہ کرتے ھوئے اسے سلسیس انداز مین پیش کرتا ھوں،ان روایات کی حقیقت جن کا طعنہ دے کر لوگ ھمیں پوچھتے ھیں کہ آپ نے فلاں حدیث نہیں پڑھی !

1- روایتِ ام المؤمنین حضرت ام سلمیؓ !

ابوکریب کو حسن ابن عطیہ ،کو فضیل ابن مرزوق کو عطیہ کو ابو سعید کو ام سلمیؓ نے بتایا کہ نبیﷺ میرے گھر میں تھے کہ یہ آیت نازل ھوئی،،انما یرید اللہ،،،،،آپﷺنے حضرت علیؓ،فاطمہؓ،حسنؓ ،حسینؓ کو بلوایا اور انہیں ایک چادر کے نیچے اکٹھا کر کے دعا کی کہ اللہ یہ میرے اھلبیت ھیں ان سے پلیدی کو دور فرما دےاور انہیں پاک کر،، ام سلمہؓ کہتی ھیں کہ میں دہلیز پر بیٹھی تھی ،میں نے عرض کی کہ کیا میں اھلبیت نہیں،،آپﷺ نے فرمایا تم خیر کی طرف ھو تم ازواج النبی ھو( قرآن مین خطاب بھی ازواج کو ھے ) !
راویوں کی سکروٹنی !

حبیب اللہ کیرانوی لکھتے ھیں،،اس حدیث کا وضع کرنے والا ،محمد بن سائب الکلبی ھے،جسے اسے روایت میں ابو سعید لکھا گیا ھے، اس کا شاگرد عطیہ اس کو ابوسعید کہتا تھا تاکہ لوگ ابو سعید خدریؓ کا دھوکا کھائیں،،یہ محمد بن سائب الکلبی رافضی تھا، اور کذاب تھا، یہ کہا کرتا تھا کہ جبرائیل وحی لائے تو نبیﷺ گھر پر نہیں تھے،،تو وہ حضرت علیؓ پر وحی نازل کر کے چلے گئے،
عطیہ الکوفی،، اسی نے اپنے استاد کلبی کی کنیت ابوسعید رکھی تھی،ابن حبان کہتے ھیں کذاب تھا اور اپنے استاد کی طرح رافضی تھا،
فضیل بن مرزوق ،، یہ بھی کوفی ھے غالی شیعہ ھے، ابو عبداللہ الحاکم کہتے ھیں کہ امام مسلم پر ایک اعتراض یہ بھی ھے کہ انہوں نے اس سبائی بچے سے حدیث لے کر اسے معزز کر دیا،،میزان میں ابن حبان لکھتے ھیں کہ یہ عطیہ سے موضوع روایتیں نقل کرتا ھے،،
اس کے بعد کیرانوی صاحب لکھتے ھیں کہ یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ھیں کہ نبی کریمﷺ عرب تھے اور قرآن عربی میں نازل ھو رھا تھا،، اللہ پاک تو کہہ رھے ھیں کہ یہ احکامات اس لئے نازل کیئے جا رھے ھیں کہ اے نبیﷺ کے گھر والو تم ان پر عمل کر کے پاک صاف رہ سکو، اب نبیﷺ کا کام یہ تھا کہ وہ ان چہار تن کو بلا کر کہیں کہ تم بھی میرے گھر والے ھو لہذا ان احکامات پر چل کر تم بھی پاک صاف ھو جاؤ،،اب اللہ سے دعا کرنے کا مقصد تو یہ ھوا کہ باقی تو عمل کر کے پاک ھوں گے،،ان چار کو عمل سے چھٹی دے دیجئے،،اور خود ھی پاک کر دیجئے !
اگلی سند ملاحظہ فرمایئے !
ام سلمیؓ سے وھی کذاب کلبی ھے،، اس نیچے عطیہ الکوفی رافضی کذاب ھے نیچے اعمش ھے،نیچے مندل ھے،نیچے بکر بن یحی ھے،نیچے محمد بن مثنی ھے،،
روایت کچھ یوں ھے کہ ،،آیتِ تطہیر پنج تن کے بارے میں نازل ھوئی ھے !
سکروٹنی
مندل راوی جائز الحدیث ھے( یہ بھی اھلسنت کی سادہ لوحی ھے جس نے امت کو آگے چل کر گرداب میں پھنسایا ھے ) مگر شیعہ ھے،،( عجلی )
واھی الحدیث ھے( گپیں ھانکتا ھے)( جوزجانی،،) ثقہ نہیں ھے منکر روایتیں بیان کرتا ھے،( ساجی ) مرسل روایت کو مرفوع کر کے بیان کرتا ھے، اور مرفوع میں حافظہ کی خرابی کی وجہ سے کوئی اور بندہ جوڑ دیتا ھے، اس لیئے ترک کیئے جانے کے قابل ھے ( ابن حبان )
کیرانوی لکھتے ھیں یہ کوئی نئی روایت نہیں،اوپر کے راوی وھی کلبی کذاب اور عطیہ کذاب ھیں،، نیچے مندل نے اس کو مختصر کر دیا ھے اور شاید چادر کو چھوٹا دیکھ کر نکال دیا ھے !
تیسری روایت !
ام سلمی ؓ سے وھی محمد بن سائب کذاب ، وھی عطیہ الکوفی،، فضیل بن مرزوق شہر بن حوشب ،عبدالحمید بن بہرام، وکیع ،ابو کدینہ !
سکروٹنی !
ابن جریر نے اسے نقل کیا ھے،مضمون وھی ھے جو پہلی روایت کا ھے،، پہلے دو کذاب رافضیوں سے نیچے راویوں کی حالت کچھ یوں ھے،

شہر بن حوشب،اس کی کنیت بھی ابوسعید ھے،یہ حدیث میں قوی نہین ھے،اس کی حدیث کو نہ دین سمجھا جائے نہ حجت،،( ابن عدی)
ابن منصور نے شہر بن حوشب کے ساتھ حج کیا ،،دورانِ سفر شہر بن حوشب نے ابن منصور کا تھیلا چرا لیا ،، اور یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ھے وہ یہ کام اکثر کرتا رھا ھے ) ( یحی القطان) اس کی روایت پر اعتبار نہ کیا جائے ( جوزجانی )
گویا اس روایت میں تین رافضی کذاب (محمد بن سائب-عطیہ الکوفی-فضیل بن مرزوق) اور چوتھا چور بھی شامل ھو گیا ھگلی روایت بھی ام سلمیؓ سے ھے،راوی کچھ یوں ھیں !
ام سلمیؓ-ابو ھریرہؓ- محمد بن سیرین- سعید بن زربی- عبدالحمید بن بہرام- ابو کریب-
روایت کے الفاظ وھی پہلی والی روایت کے ھیں،،مگر ان چاروں کو اپنی کمبلی پر بٹھایا اور پھر کمبلی کے چاروں کونے اکٹھے کر کے انہیں بائیں ھاتھ مین پکڑا اور دائیں ھاتھ سے اللہ کی طرف اشارہ کیا،، اور فرمایا،،،،
سکروٹنی !
سعید بن زربی،، اس حدیث کی سند اور متن بنانے والا سعید بن زربی ھے یہ دونوں چیزیں اس کی اختراع ھیں،یہ عجیب عجیب منکرات روایت کرتا ھے(ابو حاتم ) یہ صاحب العجائب ھے ( امام مسلم ) یہ ثقہ راویوں کے نام سے موضوع احادیث روایت کرتا ھے !
مولوی سراج الحق مچھلی شہری لکھتے ھیں کہ ان حضرات کا گھٹڑی بنا کر بائیں ھاتھ مین پکڑنا واقعی ایک عجیب اور منکر شئ ھے اور اپنے دائیں ھاتھ سے اللہ کی طرف اشارہ کرنا اس سے بھی عجیب کیونکہ اشارہ اسمان کی طرف کیا جاتا ھے اللہ کی طرف نہیں !

اگلی روایت !

یہ بھی ام سلمیؓ سے ھے ،روایت وھی ھے،کپڑے مین لے کر دعا کرنا،،

روای ام سلمہؓ -عبداللہ بن وھب ابن زمعہ ،ھاشم بن عتبہ بن ابی وقاص،موسی بن یعقوب،خالد بن مخلد ابو کریب !
سکروٹنی !!
خالد بن مخلد – یہ روایت اور سند اس خالد بن مخلد کی اختراع ھے،یہ غالی شیعہ تھا اور تشیع میں انتہا کو پہنچا ھوا تھا( ابن سعد)
صحابہ کو اعلانیہ سب و شتم کیا کرتا تھا ،،کسی نے پوچھا صحابہ کے مناقب کی بھی کوئی حدیث تمہارے پاس ھے تو بولا،،ان کی برائیوں کی پوچھو ( جوزجانی ) گویا ابن مخلد جیسا دشمن صحابہ اور موسی بن یعقوب جیسا منکر الحدیث بھی شامل ھے !
اسے مسلمانوں کی بدنصیبی کہیئے یا سوء اتفاق کہ یہ خالد بن مخلد بخاری و مسلم کا راوی بن گیا ھے،، مگر کیرانوی صاحب اس پر بھی جرح کر رھے ھین جو کہ آج کل قابلِ گردن زنی جرم ھے،،اس لحاظ سے منکر حدیث کا ٹائٹل ان کا حق بنتا ھے !
اوپر بیان کردہ پانچ روایتیں اصل مین ایک ھی روایت ھیں،،بس نیچے راوی بدلتے رھے ھیں،جو اپنے اپنے مزاج کے لحاظ سے میٹھا اور نمک ملاتے رھے ھیں ان سے یہ ثابت ھوا کہ تطہیر کے لئے عمل کی نہیں بلکہ کمبل کی ضرورت ھے،، حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت سمیت دیگر روایتوں پر اگے بحث آ رھی ھے !
اگلی حدیث بھی ام سلمہؓ سے روایت ھے مگر اب کہ مضمون تبدیل ھو گیا ھے،، سچ کہتے ھیں جھوٹے کو یاد نہین رھتا کہ وہ پہلے کیا بیان دے چکا ھے،، دروغ گو را حافظہ نباشد !
ام سلمیؓ فرماتی ھیں کہ نبی اللہﷺ میرے گھر تشریف لائے تو مجھے فرمایا کہ میرے پاس کسی کو نہ انے دینا، علیؓ آئے تو میں نہ روک سکی،پھر فاطمہؓ آئی تو میں ان کو والد کے پاس جانے سے نہ روک سکی،پھر حسنؓ آئے تو میں ان کو بھی نہ روک سکی،،حسین ائے تو میں ان کو بھی نہ روک سکی ( گویا نبیﷺ کے حکم کی نافرمانی کی ) جب یہ سارے نبیﷺ کے بستر پر جمع ھو گئے تو نبیﷺ نے ان کو کمبل اڑایا جسے خود اوڑھے ھوئے تھے،پھر دعا کی کہ یہ میرے اھل بیت ھیں ان سے پلیدی دور کر اور انہیں پاک کر ،، تو جب یہ بچھونے پر اکٹھے ھو گئے تو تب یہ آیت اتری ” انما یرید اللہ” میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی شامل کر لیجئے واللہ مجھے چین نہیں آئے گا ،مگر آپﷺ نے فرمایا تم خیر پر ھی ھو( البتہ تمہیں اھل بیت میں شامل کیا تو پنج تن پاک کی گنتی خراب ھو جائے گی)
اس ایت کو ھی اگر کوئی پورا پڑھ لے تو جھوٹ پکڑا جاتا ھے،،صرف درمیان سے ایک جملہ پکڑ کر جھوٹ کا جو قلعہ تعمیر کیا گیا ھے وہ دھڑام سے منہدم ھو جاتا ھے،، اس آیت مین مخاطب ھی نبی کی بیویاں ھیں،، اور ان کو عربی بھی آتی ھے، جب انہیں اللہ نے وہ مقام پہلے ھی قرآن میں عطا فرما دیا ھے تو پھر انہیں نبیﷺ سے بار بار مانگنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیا انہیں قرآن پر اعتبار نہیں تھا ؟ان دجالوں نے آیت کے دو ٹکڑے کر کے ازواجِ مطہرات کو نکال باھر کیا،، ھمارے علماء تک اس ٹکڑے کو پوری آیت سمجھتے اور جمعے کے خطبے میں آدھے سے ھی شروع کر کے تقریر کرتے ھیں !
رافضیوں کے نزدیک یہاں سے 2000 آیتیں ابوبکرؓ و عمرؓ نے نکلوائی ھیں،، اور اس کے لئے بھی ابو موسی اشعریؓ جیسے صحابی سے کہلواتے ھیں اور اھل سنت کی حدیث کی کتاب میں لکھتے ھیں کہ کسی زمانے میں سورہ الاحزاب سورہ بقرہ جتنی تھی،اب بس اتنی ھے جتنی تم دیکھتے ھو،یعنی 286 میں سے موجودہ 73 آیتیں نکال دیکھئے،ابوبکرؓ و عمرؓ نے کتنی نکالیں ھیں،، اور کس کے نام سے یہ الزام لگایا جا رھا ھے،ابو موسی الاشعرؓی جو قرأت قرآن کے امام تھے اور کوفے کے گورنر تھے ان کی زبان سے کہلوایا جا رھا ھے !

لوگ غـــــیروں کا گلــہ کــــرتے ھیں، ھـــم نے تــو اپنے آزمــائے ھیں !
تم تو کانٹوں کی بات کرتے ھو ھم نے پھولوں سے زخم کھائے ھیں !

1- راوی عبداللہ بن عبدالقدوس ،، جناب کیرانوی صاحب لکھتے ھیں،اس روایت کی یہ شکل عبداللہ بن عبدالقدوس کی اختراع ھے،یہ عبداللہ لا شئ ھے،خبیث رافضی ھے( یحی ابن معین ) ضعیف الحدیث ھے رافضی المذھب ھے ( ابو داؤد ) یہ ثقہ نہیں ( نسائی ) اکثر عجیب و غریب حدیثیں نقل کرتا ھے ( ابن حبان )یہ اکثر اھل بیت کے فضائل پر حدیثیں روایت کرتا ھے ( ابن عدی ) یہ خشبی شیعہ تھا ( ابو معمر ) خشبی شیعہ سے مراد وہ شیعہ تھے جو اس لکڑی کی پوجا کرتے تھے جس پر حضرت امام زید کو سولی دی گئ تھی ،،یہ مزدکی تھا،کسی ابل نہ تھا،یہ پاگل تھا لڑکے اس کے پیچھے شور مچاتے پھرتے تھے،
مولانا کیرانوی لکھتے ھیں یہ موضوع روایت مولوی عاشق الہی صاحب خلیفہ مجاز مولانا رشید احمد گنگوھی نے اپنی حمائل کے حاشیئے میں درج کی تھی،، یہ ھے اھل سنت علماء کی غفلت !
22- محمد بن حمید الرازی — یہ مشہور مؤرخ ھے ابن جریر کا استاد ھے اور یعقوب قمی کا شاگرد ھے،یعقوب بن شیبہ کہتے ھیں یہ بہت منکرات بیان کیا کرتا ھے، ابو زُرعہ کہتے ھیں کہ یہ کذاب ھے ،فضلک الرازی کہتے ھیں کہ میرے پاس اس کی پچاس ھزار احادیث لکھی پڑی ھیں مگر میں ان میں سے ایک بھی بیان کرنا حلال نہیں سمجھتا !
صالح جزرہ کہتے ھیں کہ یہ جھوٹ بولنے میں بہت جری تھا،ھم تو اسے ھر بات میں جھوٹا سمجھتے تھے،بلکہ میں نے جھوٹ بولنے مین اس سے بڑھ کر ماھر کسی کو نہیں پایا،، ( یہ نام یاد رکھ لیں جھوٹی حدیثوں میں یہ جگہ جگہ آئے گا) ابن خراش کہتے ھیں،اللہ کی قسم وہ تو جھوٹ بولتا ھے،
فضلک الرازی کا بیان ھے کہ میں ایک دن ان موصوف کے گھر گیا تو جناب جھوٹی سندات بنانے میں جُٹے ھوئے تھے !

اھلِ بیت کی دو قِسمیں ھیں !

1- قرآنی اھل بیت

،، قرآن حکیم نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کے واقعے میں بیان کیا ھے کہ جب اللہ پاک نے انہیں بڑھاپے میں بیٹے اور پوتے کی بشارت سنائی تو ،،ان کی زوجہ جو خواتین کے روایتی تجسس کی بدولت دروازے کے پیچھے سے گفتگو سن رھی تھیں ، حیران رہ گئیں،، اور بے ساختہ اپنے ماتھے کو ھاتھ مار کر بولیں،” قالت یا ویلتی أالد وانا عجوز وهذا بعلی شیخا ان هذا لشیء عجیب ” لو جی اب میں بوڑھی پھونس بانجھ عورت بچہ جنوں گی ! اِنَۜ ھٰذا لشئٓ عجیب،، یقیناً یہ بہت تعجب خیز بات ھے ! اس پر فرشتوں نے ان کی طرف رُخ خطاب بدلا اور کہا،، اتعجبین من امر اللہ، رحمۃ اللہ و برکاتہ علیکم ” اھل البیتِ” ،، کیا اللہ کے کاموں پر تعجب کر رھی ھو ؟ اللہ کی رحمت و برکتیں ھوں تم پر اے گھر والو !( ھود 73 ) پتہ چلا گھر والے یا اھل بیت بیوی ھوتی ھے چاھے اولاد ھو یا نہ ھو،،!
سورہ احزاب میں پورا رکوع اللہ پاک نے نبی ﷺ کی بیویوں سے یا نساء النبی،، اے نبی کی بیویو ! اے نبی کی بیویو کہہ کر پابندیاں لگائیں،، نصحیتیں کیں اور وجہ یہ بیان کی کہ اے اھل بیت اللہ پاک ان پابندیوں کے ذریعے تم سے گندگی کو دور کرنا چاھتا ھے،، انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس ” اھل البیت "و یطہرکم تطہیرا ( الاحزاب 33 ) اس کے بعد بھی خطاب بیویوں سے ھی جاری ھے،،یہ تو تھے قرآنی اھل بیت –

2- روایتی اھل بیت !

جنہیں روایتوں کے ذریعے اھل بیت بنایا گیا !

تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ھے کہ ‘اس آیت تطہیر کی تفسیر میں سید مودودی لکھتے ھیں کہ” یہ آیت جس سیاق و سباق میں نازل ھوئی ھے اس سے صاف ظاھر ھے کہ یہاں اھل بیت سے مراد نبیﷺ کی بیویاں ھیں کیونکہ خطاب کا آغاز ھی ‘ یا نساء النبئ ” سے کیا گیا ھے اور وھی ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر کا مخاطب ھیں،،یہ لفظ اس کے علاوہ قرآن مین مزید دو جگہ آیا ھے اور وھاں بھی ٹھیک گھر والوں کے معنی میں ھی آیا ھے ! نیز اصل خطاب ازواج ھی سے ھے اور اولاد مفہوم مین شامل ھے، اسی بنا پر ابن عباسؓ صحابی ،عروہ تابعی اور عکرمہ تابعی کہتے ھیں کہ اس آیت سے مراد ازواج النبیﷺ ھیں ( تفہیم ج 4 )
مگر مفسر کلبی رافضی اور سبائی ٹولہ مدعی ھے کہ یہ آیات پنج تن پاک کے بارے میں نازل ھوئی ھیں،،چھٹا تن اس میں داخل نہیں ھو سکتا،،لہذا نبیﷺ کی ساری دیگر بیٹیاں اور 9 بیویوں جو اس وقت موجود تھیں سب کو اھل بیت سے نکال باھر کیا !
مگر اھل سنت کے قربان جائیے کہ یہ ھمیشہ baby sitterr کا کام کرتے ھیں،، جو بھی حلال حرام کا بچہ ان کے سپرد کر دو یہ بس اپنے چارجز لے کر اس کو پالتے ھیں،،بچے کی اصلیت سے ان کو کوئی لینا دینا نہیں ھے،، ان کو تقریر و تحریر کا مواد چاھئے،،
حق بیان کرنے کے بعد خود مودودی صاحب اب بیک ڈور سے اھل بیت کی نئی کھیپ گھساتے ھوئے لکھتے ھیں کہ ابن ابی حاتم کی روایت ھے کہ حضرت عائشہؓ سے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے بارے مین پوچھا گیا تو فرمایا ” اس شخص کے بارے میں پوچھتے ھو جو نبیﷺ کے محبوب ترین لوگوں میں شامل تھا( اور جس سے میں لڑنے گئ تھی ) جس کی بیوی نبیﷺ کی محبوب ترین بیٹی تھی،، پھر حضرت عائشہؓ نے روایت بیان کی کہ ” حضورﷺ نے حضرت علیؓ،فاطمہؓ حسن ؓ حسینؓ کو بلایا اور ان پر کپڑا ڈال دیا اور دعا کی کہ ائے اللہ یہ میرے اھلِ بیت ھیں ان سے گندگی دور کر اور انہیں پاک کر،،حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں بھی تو آپ کے اھلِ بیت میں سے ھوں یعنی مجھے بھی کپڑے میں داخل فرما کر دعا کیجئے،حضورﷺنے فرمایا تم الگ رھو تم تو خیر ھو ھی،،
اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت روایات،مسلم،ترمذی، احمد ،ابن جریر،حاکم،بہیقی وغیرہ محدثین نے، حضرت عائشہؓ،انسؓ،ام سلمیؓ،حضرت واثلہؓ اور بعض دوسرے صحابہ سے نقل کی ھیں،جن کے مطابق نبیﷺ نے علیؓ ۔فاطمہؓ اور حسنینؓ کو اھل بیت میں شامل کیا،لہذا جو لوگ ان کو خارج کرتےھیں ان کا خیال درست نہیں ھے،( تفہیم ج4 )
یہ مودودی صاحب پر ھی بس نہیں بلکہ تقریباً سارے ھی اھل سنت مصنفین اللہ پاک کو عربی پڑھانے کی کوشش کرتے ھیں کہ آپ خواہ مخواہ ھر جگہ بیویوں کو اھل بیت قرار دے دیتے ھیں اور عیال کو اس مین شامل نہیں کرتے،، ھم بھی یہ تسلیم کرتے ھیں کہ بچے جب والدین کے گھر ھوتے ھیں تو وہ اھل بیت کے خطاب میں شامل ھوتے ھیں،،مگر جب بچی بیاھی جاتی ھے تو اللہ تو اللہ ھے،، فتح خان نائی بھی شادی شدہ بچی کے بارے میں کہتا ھے کہ جی وہ تو اپنے گھر کی ھو گئی ھے،!
اگر اس خطاب میں نبیﷺ کی دیگر شادی شدہ بچیوں ،رقیہ،کلثوم اور زینب کو بھی شامل کر لیا جاتا تو ھم سید مودودی صاحب سمیت تمام اھل سنت مصنفین کے ھاتھ دھو کر پیتے،،مگر وہ بیٹی جو اجڑ کر نبی ﷺ کے گھر بیٹھی ھوئی تھی،یعنی حضرت زینبؓ،،وہ تو اس خطاب مین شامل نہیں کی گئی،،
ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ھوتا ھے ،تھوڑی دیر بعد اس کا بیٹا آتا ھے وہ اسے چوم کر اپنی گود مین بٹھا لیتا ھے،، پھر اس کی بیٹی آتی ھے، اور وہ اسے چوم کر زمین پر اپنے ساتھ لگا کر بٹھا دیتا ھے اور اللہ کا نبیﷺ تڑپ اٹھتا ھے،، فرمایا تو نے عدل نہیں کیا، تو نے عدل نہیں کیا،، یا تو اسے بھی نیچے بٹھا یا پھر بیٹی کو بھی دوسری ران پر بٹھا،، یہ ھے عدلِ نبوی،،وھی نبی ﷺ اپنی اولاد میں اس طرح کی بے انصافی کیسے کر سکتا ھے،، رافضی تو صرف حضرت فاطمہؓ کو نبیﷺ کی بیٹی مانتے ھیں باقی بیٹیوں کو حضرت خدیجہ کے سابقہ شوھر کی مانتے ھیں،،مگر تم ائے اھل سنت اپنے نبیﷺ سے اس بے انصافی کی توقع کیسے رکھتے ھو ؟
گویا نبیﷺ باقی دنیا کے لئے رحمۃ اللعالمین ھوں تو ھوں،،اپنی اولاد کے ساتھ بے انصاف تھے،،زینب گھر میں تھی،بیمار تھی، اجڑ کر آئی تھی،،اس کی بچی کو اٹھا کر نبیﷺ قیام کرتے جب سجدہ کرتے تو زمین پر رکھ دیتے،جب دوبارہ اٹھتے تو پھر اٹھا لیتے،اسی امامہ کی والدہ کے لئے چادر میں جگہ نہیں تھی،کیونکہ آیت 5 ھ میں نازل ھوئی ھے اور حضرت زینب ؓ بنت محمد ﷺ 2 ھ سے لے کر 8 ھجری تک اپنے والد کے گھر رھی ھیں،،

زمانہ بہترین استاد ھے

جن ذھنوں میں صدیاں لگا کر بھر دیا گیا ھے کہ ایک ھاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار لے کر نکلو اور دنیا پہ چھا جاؤ ،، ان ذھنوں میں نئے حقائق ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ھے ،  پرانے کو ادھیڑ کر چھوٹا کرنے  کی بجائے نیا کپڑا سینا بہت آسان ھوتا ھے – فرعون کے بھٹے پر اینیٹیں بنانے والے اور آل فرعون کے گھروں میں برتن دھونے اور بھنگی کا کام کرنے والے پرانے مائنڈ سیٹ کو دو جلیل القدر پیغمبر بھی تبدیل نہیں کر پائے تھے یہاں تک کے پوری قوم کو 40 سال کے لئے 30 مربع میل کے لق و دق صحراء میں قید کر دیا گیا ، صحراء میں پیدا ھونے والے نئے ذھن نے نئے زمانے کے مطابق حالات کا جائزہ لے کر جب قدم اٹھائے تو بیت المقدس سمیت سب ارضِ مقدس ان کے حوالے کر دی گئ -اسی طرح  ھم مر جائیں گے تو آئندہ چالیس سال میں وہ نوجوان نسل وجود میں آ جائے گئ جو ایک ھاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کردار لے کر نکلے گی اور دنیا پر اتمامِ حجت کر دے گی ،، تلوار لے کر نکلنے کا جتنا حق آپ کو حاصل ھے ویسا ھی حق امریکہ برطانیہ فرانس اور روس کو حاصل ھے پھر ان کے خلاف شور کرنے  کا فائدہ کیا ؟ لینے کے پیمانے اور دینے کے پیمانے اور ؟

اسلام اور ھم

 

اگر تو اسلام کسی اے سی یا پنکھے جیسی مشین کا نام ھے یا کوئی درخت ھے تو اسے کہیں سے بھی لگایا جا سکتا ھے یا  امپورٹ کر کے فٹ کیا جا سکتا ھے ، لیکن اگر کردار کا نام ھے تو ایک چور جج بھی بن جائے تو رشوت ھی لے گا ،، مقننہ میں ھو گا تو بھی وھی گل کھلائے گا ،، جب خام مال ھی خراب ھے تو وہ جہاں جا کر فٹ کرو گے بھٹہ بٹھا دے گا ، اب جہوریت کا بٹھایا ھوا ھے ،کل اسلام کا بٹھا دے گا ،، ابھی بھی اسلام کے لئے ایک Face saving موجود ھے کہ ” یہ نافذ ” نہیں ھے ،اگر نافذ ھوتا تو پتہ نہیں من و سلوی اترنا شروع ھو جاتا ،، حقیقت یہ ھے کہ اس چور سوسائٹی کے سپرد جو نظام بھی ھو گا یہ اس کو بدنام کریں گے ! علمنا الایمان ثمہ علمنا اقرآن،، ھمیں پہلے ایمان سکھایا گیا پھر قران سکھایا گیا ،، ابن عمر نے 8 سال میں سورہ بقرہ حفظ کی تھی ، فرماتے تھے دس آیتیں لیتا ھوں جب تک ان پر عمل مکمل نہیں ھوتا اگلی دس آیتیں نہین لیتا ،یوں وہ چلتا پھرتا قران بن گئے تھے ،، ھم چلتے پھرتے دجال ھیں ،پیپ سے بھرے کنستر کے اوپر دو کلو گھی ڈال کر خالص گھی بیچنے نکلے ھیں !

شھادت علی الناس میں کردار کی اھمیت

 

بھائیو ھم سے قسم لے لو جو ھمیں اپنی قوم کے قتل و قتال اور مار دھاڑ کی صلاحیت پہ کبھی شبہ ھوا ھو ،، بلکہ میں تو گواھی دیتا ھوں کہ شقاوتِ قلبی میں ھمیں نوبل انعام ملنا چاھئے کیونکہ ھمیں کوئی غیر قتل کرنے کو نہ ملے تو ھم اپنی جوان بیٹی کو ھی غیرت کے نام پر قتل کر لیتے ھیں ، اپنا داماد ، یا سالا یا بہنوئی بھی ھنس کر مار لیتے ھیں ، اب تو باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو بھی مار لیتا ھے ، بلکہ موڈ بنے تو ماں باپ اور بہن بھائیوں سمیت سات کے سات بھی مار لیتا ھے اور اس پر جھوٹ موٹ رو کر ایف آئی آر بھی نامعلوم کے خلاف کٹا سکتا ھے ، رأس الخیمہ میں ایک بھائی نے 300 درھم کے تنازعے پر اپنے دو بھائیوں کو سوتے میں ذبح کر دیا تھا ،تینوں ایک ھی کمپنی میں کام کرتے تھے دونوں چھوٹے شفٹ کر کے سوئے ھوئے تھے جب تیسرے بھائی نے جو سپروائزر تھا ،، آ کر انہیں مار ڈالا !!

الغرض ھم کو یہ الزام نہ دیا جائے کہ ھم قتل و قتال پر کوئی شک شبہ کرتے ھیں !ھمیں بس اعتراض ان پر ھے جو اپنی نماز جوتی کے عوض اور حج دو روٹیوں کے عوض بیچ دیتے ھیں مگر شہادتِ علی الناس کا بیڑا بھی اٹھائے ھوئے ھیں ! میری مسجد سے میرے سامنے میری جوتی پہن کر ایک صاحب چلے گئے ، ان کی شکل و صورت اتنی مسنون تھی کہ میں بس دیکھتا ھی رہ گیا اور: ؎

قیامت سے پہلے قیامت ھے یارو !
میرے سامنے میری جوتی اٹھے گی !

کا ورد کرتا رہ گیا ،، ظہر کی نماز پڑھ کر حرم سے انسانوں کا سیلاب نکلتا ھے اور ھوٹلوں کا رُخ کرتا ھے ،ھوٹیل پہ ھر چیز پیک ھوتی ھے بریانی ،چٹنی ، سالن روٹی ،، 5 ریال لے کر ھوٹیل والا ایک سالن اور دو روٹیاں پکڑاتا جا رھا تھا ،، دو دوست کھڑے تھے ،حسبِ معمول ھوٹیل والے نے دونوں کو دو سالن اور چار روٹیاں پکڑا دیں ، مگر ایک دوست کا ایمان اسے تنگ کر رھا تھا ، وہ ساتھ والے کہنے لگا : پکڑ یار میری روٹیاں میں اس سے اور لیتا ھوں ،، اور پھر گرج کر کہنے لگا ” او بھائی روٹی دو ناں ،، ھوٹیل والے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور دو روٹیاں اس کو پکڑا دیں ،،یہ اس وقت دو ریال کی دو روٹیاں تھیں، یوں وہ دو ریال میں اپنا ایمان بیچ کر چل دیئے !

اے ایمان والو! اگر روایت میں ایک راوی بھی ایسا ھو جس پر صرف جھوٹ یا بد دیانتی کا الزام لگا ھو تو وہ روایت اس بندے کے کردار کی وجہ سے کمزور ھو جاتی ھے ، اگر دو راوی ایسے ھوں تو مزید ناقابلِ اعتبار ھو جاتی ھے ،، جہاں پورا معاشرہ دروغ گوئی ،فند فریب ،بدعہدی اور بددیانتی کا مرقع ھو ،ان کا روایت کردہ دین کس حد تک معتبر ٹھہرے گا ؟ گواھی سے پہلے گواہ اور شہادت سے پہلے شاھد کا کردار زیرِ بحث آتا ھے ،اللہ پاک کے عدل انصاف کو دیکھتے ھوئے مجھے تو لگتا ھے کہ حشر میں غیر مسلم کہیں یہ جواز پیش کر کے بری ھی نہ ھو جائیں کہ ” مالک کیا یہ لوگ قابلِ اعتبار تھے ؟ دنیا کی ھر قباحت ان میں تھی ، اے مالک تیرے دین کے راوی بدکرداری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ! اور میرا اللہ ان کو بری کر کے ھمی کو پکڑ کر نہ لٹکا دے !

اس لئے میں کردار و سیرت کی طرف توجہ دلانا چاھتا ھوں کہ یہ بے کرداری ھماری ذات اور معاشرے کے لئے تو تباہ کن ھے ھی،، شہادتِ علی الناس کے فریضے کے لئے بھی زھرِ قاتل ھے !

سچ جب جھوٹے کے منہ سے نکلتا ھے تو اپنی عصمت و عظمت کھو دیتا ھے !

سلامت رھیں !